یہ صفحہ خواتین کے روز مرہ خاندانی اور ذاتی مسائل کیلئے وقف ہے۔ خواتین اپنے روزمرہ کے مشاہدات اور تجربات ضرور تحریر کریں۔ نیز صاف صاف اور صفحے کے ایک طرف مکمل لکھیں چاہے بے ربط کیوں نہ لکھیں۔
ناکامیاں مقدر بن گئیں
٭چند برس پہلے ہمارے کئی کارخانے تھے‘ شاندار گھر تھا‘ زرعی زمین تھی۔ کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں تھی۔ رونق والا گھر اور چاہنے والا شوہر دیکھ کر دل جھوم اٹھتا تھا‘ مگر پچھلے دو سال میں کایا پلیٹ گئی۔ کارخانے بک گئے۔ گھر بھی اپنا نہیں رہا اب کرائے کا مکان ہے۔ زرعی زمینوں پر مقدمہ چل رہا ہے۔ دشمنوں نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ میں بہت سوچتی ہوں کہ ہمارے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ رہ رہ کر ایک ہی خیال آتا ہے۔ میری ساس کی برادری کی ایک بہن ان کے ساتھ رہتی تھیں۔ غریب خاتون تھیں۔ جب تک ساس زندہ رہیں‘ انہیں اپنے ساتھ کھلاتی پلاتی رہیں۔ کپڑے بنا دیتیں حتیٰ کہ اکثر دوپہر کو ایک ہی کمرے میں سو جاتیں۔ ساس انہیں ایک ہزار روپیہ جیب خرچ بھی دیتیں جسے وہ تقسیم کر دیا کرتیں یا مسجدوں میں سرسوں کے تیل کے چراغ جلانے کیلئے بھجوا دیتیں۔
ساس کی وفات کے بعد ان کے ساتھ ہم سب کا رویہ بدل گیا۔ وہ اپنے کمرے تک محدود ہو گئیں۔ نوکر اپنی مرضی سے کھانا دیتے‘ کوئی انہیں نہ پوچھتا۔ ایک دن ان کی کوئی بوڑھی عزیزہ ملنے آئیں۔ گرمی کا موسم تھا۔ کسی نے انہیں نہ پوچھا۔ وہ شام تک رہیں۔ اس دن پہلی بار وہ غریب بہن میرے شوہر کے پاس آئیں‘ کہنے لگیں ”میری ایک غریب رشتہ دار آئی ہیں۔ بہت بیمار ہیں آپ کہیں تو رکھ لوں۔ انہیں ہسپتال میں دکھا دیں ورنہ ان کی کچھ مدد کرکے واپس بھیج دیں۔“
میرے شوہر نے نفی میں سر ہلا دیا۔ میں بھی قریب بیٹھی سب کچھ سن رہی تھی۔ میں نے بھی ان کی مدد نہیں کی بلکہ بچے بول اٹھے ”دادی آپ کو جو ہزار روپے دیا کرتی تھیں‘ وہ کہاں ہیں؟“ لیکن دادی کے بعد ان کا خرچہ تو ہم نے بند کر دیا تھا۔ وہ چپ چاپ کھڑی رہیں۔ پھر خاموشی سے باہر چلی گئیں۔ صبح منہ اندھیرے وہ اپنی عزیزہ کے ساتھ گھر چھوڑ گئیں۔ پھر پتا نہیں ان کا کیا بنا۔ دو چار روز کے بعد ہم پر زوال آنے لگا۔ کبھی کبھی میرے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ شاید ہمیں ان کی بددعا لگ گئی ہے۔ اب ان کا کچھ اتا پتا نہیں‘ معلوم نہیں زندہ بھی ہیں یا نہیں۔
مشورہ دیجئے کہ میں یہ الجھن کیسے دور کروں جو میرے ذہن میں بلا بن کر بیٹھ گئی ہے۔ ہم نے تو ان کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا تھا‘ ذرا سی بات پر وہ روٹھ کر چلی گئیں۔ ایسا تو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ (ن.... مقام نامعلوم)
مشورہ: بی بی! آپ کی مرحومہ ساس جنہیں آپ ان پڑھ اور جاہل تصور کرتی ہیں‘ وہ آپ سے کئی درجے بہتر تھیں کیونکہ انہیں حقوق العباد کا علم تھا۔ اسی لیے انہوں نے وضعداری کے ساتھ بہن کو اپنے پاس رکھا‘ اچھا سلوک کیا اور ماہانہ خرچ بھی دیا۔ انسان کو یہ علم نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کس کے صدقے اسے رزق دے رہا ہے۔ اشرف المخلوقات ہونے کے ناتے وہ اپنے آپ کو برتر محسوس کرتا ہے۔ آپ کے ماجرے کی طرح کئی واقعات میرے سامنے ہیں انہیں تحریر کروں تو اچھی خاصی کتاب تیار ہو جائے گی۔ اسے پڑھ کر لوگوں کی آنکھیں کھل جائیں گی کہ اللہ تعالیٰ رزق کے دروازے کس طرح عطاءکرتا ہے اور اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آتی۔ ضمیر کی خلش نے آپ کے ذہن کو بوجھل کر رکھا ہے۔ اسے آپ اپنے باطن کی آواز کہہ سکتی ہیں جو بار بار آپ کو وہ لمحہ یاد دلاتی ہے جب اس خاتون نے مدد مانگی تھی اوراسے مدد دینے سے آپ نے انکار کر دیاتھا۔ آپ کے شوہر یا آپ خود ہی بے سہارا خاتون کی مدد کر دیتیں تو آپ کے خاندان پر زوال نہ آتا۔ اس پُر آشوب دور میں جب کہ اپنے بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں‘ میں ایسے لوگوں کو ذاتی طور پر جانتی ہوں جو خاموشی سے اپنے غریب اعزہ کی پرورش کررہے ہیں۔ ایک صاحب نے اپنی بیوہ بہن کو اپنے پاس رکھا ہے۔ وہ ہر طریقے سے اس کا خیال رکھتے ہیں۔ وہی نہیں بلکہ ان کی بیگم اور بچے بھی پھوپھی اور ان کے بچوں کا بڑا پاس لحاظ رکھتے ہیں۔ یہ صرف بھائی کی وجہ سے ہے جو بہن کا دل کبھی میلا نہیںہونے دیتے۔ اسی لیے اللہ نے انہیں نواز دیا ہے۔ پچاس ساٹھ سال قبل لوگ بوڑھے، اپاہج اور معذور رشتہ داروں کو پاس رکھنے میں فخر محسوس کرنے اور ان کی خدمت کو عار نہیںسمجھتے تھے۔ آج یہ نیک روش تبدیل ہو گئی ہے۔آپ کے خط سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی بزرگ عزیزہ کے ملنے والوں کے پتے بھی اپنے پاس نہیں رکھے۔ میرا مشورہ ہے کہ کسی طرح انہیں تلاش کیجئے اور معافی مانگ کر گھر لے آئیے۔ اس ضمن میں نوکروں، پڑوسیوں اور اعزہ سے پوچھ گچھ کیجئے، ہو سکتا ہے کہ ان کا اتا پتا مل جائے۔ آپ نے خط کے آخر میں یہ جملہ لکھا ہے ”ہم نے تو ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا، ذرا سی بات پر ایسا تو نہیں ہونا چاہیے تھا۔“ درحقیقت یہ جملہ آپکے حقیقی جذبات کی عکاسی کررہا ہے۔ اب بھی آپ کے دل میں ان کے خلاف کینہ ہے۔ فوراً دو نفل پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے توبہ کیجئے پھر انہیںتلاش کیجئے۔ امید ہے وہ مل جائیں گی اور آپ کے گھر کی خوشحالی واپس آجائے گی۔ کبھی کسی کا رزق نہیں چھیننا چاہیے۔ کچھ لوگ بلاوجہ طیش میںآکر ملازموں کو جواب دے دیتے ہیں یا ان کے ساتھ اچھا سلوک روا نہیں رکھتے۔ اس معاملے میں بھی محتاط رہنا چاہیے۔ کوئی غلطی ہو، تو آپ سمجھا سکتے ہیں۔ نہ سمجھے تو تنبیہہ کر دیں۔ معاملہ ٹھیک ہو جائے گا ۔
پیلے دانت
٭ہمارے گھر میں سب بچوں کے دانت پیلے ہیں۔ میں مہنگے ٹوتھ پیسٹ خرید نہیں سکتا۔ مجھے پیلاہٹ دور کرنے کا کوئی اچھا سا نسخہ بتائیے۔ (رحیم داد، ملتان)
مشورہ:ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کی تاکید فرمائی ہے۔ جو لوگ مسواک کے عادی ہیں۔ ان کے دانت ٹھیک رہتے ہیں۔ انہیں دانتوں کی کوئی بیماری نہیں ہوتی۔ آپ بچوں کو نیم یا کیکر کی مسواک دیں۔ آپ نے لکھا ہے کہ منجن ایسا ہو جو کم پیسوں میں بن جائے۔ ایسا کیجئے کہ مکئی کا بھٹا لے کر اس کے دانے نکال لیجئے، پھر تین چار خالی بھٹے سکھائیے اور کیکر کے کوئلے جلا کر اس پر رکھ دیجئے۔ جب بھٹے جل چکیں، تو ان کی راکھ لے کر اس میں تھوڑا سا نمک اور تھوڑی سی پھٹکڑی پیس کر ملا لیجئے۔ اب منجن تیار ہے۔ صبح و شام انگلی سے اچھی طرح ملیے اور بیس منٹ تک کلی نہ کیجئے جو لعاب نکلے وہ تھوک دیجئے۔ کیکر کے کوئلے نہ ملیں تو آپ مکئی کے بھٹے توے پر رکھ کر جلا سکتے ہیں۔ پنجاب میں کئی جگہ دیکھا ہے کہ روٹی جلا کر بھٹے کی راکھ میں نمک اور پھٹکڑی ملا کر منجن بناتے ہیں۔ اسی طرح بکرے کی گودے والی خالی نلیاں بادام کے چھلکوں کے ساتھ جلا کر اس میں کالی مرچ اور نمک ملا کر منجن بناتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ دانتوں کا صاف ہونا ضروری ہے۔ بچوں کو صبح و شام دانت صاف کرنے اور تازہ مسواک کرنے کی تاکید کیجئے۔ مٹھی بھر نیم کے پتے توڑئیے اور خشک کرکے پیس لیجئے۔ یہ سفوف منجن میں شامل کر لیجئے۔ یہ منجن دانتوں کی اصلاح اور صفائی کیلئے تیر بہدف ہے۔
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 308
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں